پیچھے شجرہ شریف آگے

حضرت خواجہ محمد سراج الدین

رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

از۔ مختار احمد کھوکھر

 

 

    مرید ہونے کا اصل مقصد طلب طریقت ہے اور طلب طریقت واجب ہے۔ ارشاد باری کے مطابق اللہ سے پورا پورا ڈرو۔ پس یہ آیت دلیل ہے اس پر کہ کمال تقویٰ کا حصول ضروری ہے۔ کیونکہ یہاں امر کا صیغہ ہے اور کمال تقویٰ بجز ولایت کے حاصل نہیں ہوسکتا۔

    تقویٰ وقایہ سے مشتق ہے اور وقایہ اسے کہتے ہیں کہ ترک واجبات نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کے منہیات سے پرہیز حاصل ہو۔ اہل طریقت کا اس بات پر اجتماع ہے کہ انسان پر ایک ایسے شیخ کا بیعت ہونا واجب ہے جس کی صحبت میں رہ کر اس کی صفات رذیلہ زائل ہوجائیں اور وہ بارگاہ الٰہی میں حاضر ہونے کے قابل ہوجائے اور اس کی نماز درست ہوجائے کیونکہ دین کے اصول میں ہے کہ ”جس کام کے بغیر واجب ادا نہ ہو اس کام کا کرنا حصول واجب ہے۔“

    حقائق و معارف سے معمور یہ الفاظ اس ہستی کی نگارشات ہیں جس نے خداوند قدوس کے دین کے اہم رموز سیکھنے اور اسوۂ نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونے دیکھنے، مصلحین امت کی پاکیزہ زندگیوں اور ان کے کردار کا مطالعہ کرنے، ان سے اکتساب فیض کرنے اور بندگان خدا تک شریعت مطہرہ کے اتباع کا پیغام پہنچانے اور تشنگان معرفت کی تربیت کرنے میں اپنی پوری زندگی صرف کردی۔ اس ہستی نے اپنے مقصد اور مشن کی لگن میں دن کو دن نہ سمجھا اور رات کو رات نہ جانا۔ اکتساب فیض میں کسی مشکل اور رکاوٹ کی پرواہ نہ کی، پالنے سے لیکر سفر آخر تک خدا کے سچے اور خاص بندے بن کر رہے اور بچھڑے ہوؤں کو خدا سے ملاتے رہے۔ یہ تھے شرع متین کے حامی، ضلالت و گمراہی اور بدعات کے دشمن اور محبت و معرفت الٰہی کی حلاوت سے انسانوں کے دلوں کی ویران بستیوں کو باغ و بہار کرنے والے، خدا کے محبوب حضرت خواجہ محمد سراج الدین دامانی رحمۃ اللہ علیہ۔

    آپ عارف کامل مرشد صادق سراج السالکین حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر ۱۲۹۷ھ بمطابق ۱۸۸۰ع میں موسیٰ زئی شریف میں تولد ہوئے۔

    آپ کے والدین کریمین نہایت صاحب تقویٰ اور سنت و شریعت کے پابند، محبت و معرفت الٰہیہ کے پیکر تھے، پھر کیوں نہ آپ میں بھی وہی آثار ظاہر ہوتے۔ آپ نے کچھ ہوش سنبھالا تو آپ کو قرآن مجید فرقان حمید کی تعلیم کے لیے ملا شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بٹھایا گیا۔ قرآن ناظرہ و حفظ کے بعد علم قرات، نثر و نظم، صرف و نحو، منطق، علم عقائد و فقہ، علم تفسیر و علم حدیث وغیرہ آپ نے مولانا محمود شیرازی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھیں اور ان میں کمال حاصل کیا۔ وہاں سے فراغت کے بعد آپ نے علم التفسیر کامل، صحاح ستہ اور علوم عقلیہ و نقلیہ کی باقی کتابیں خانقاہ عالیہ موسیٰ زئی شریف آکر والد گرامی قدر حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھیں۔ نہ صرف یہ بلکہ علم تصوف کی تکمیل میں بھی مشغول ہوئے۔ اکتساب فیض کے ساتھ ساتھ آپ نے کتب تصوف و مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ، مکتوبات معصومیہ بھی اپنے والد گرامی سے تفصیلًا پڑھیں۔

    خداوند قدوس نے آپ سے دین متین کا کام لینا تھا، اس لیے آپ پر خاص رحمت کی نظر تھی کہ آپ نے مختصر عرصے میں علوم مروجہ نہ صرف حاصل کرلیے بلکہ عرفان و سلوک میں بھی کمال حاصل کرلیا۔ چودہ برس کی مختصر عمر میں نہ صرف آپ کی دستار بندی ہوئی بلکہ عارفان حق کے جلو میں حضرت خواجہ حاجی الحرمین دوست محمد قندھاری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک کے قرب میں خلافت و اجازت مطلقہ بھی مل گئی۔ خلافت سے قبل حضرت خواجۂ خواجگان محمد عثمان دامانی رحمۃ اللہ علیہ مرشد مربی کے مزار پر مراقب ہوئے اور کافی دیر تک محویت کے عالم میں مزار شریف کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہے اور بعدہ صاحبزادہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف متوجہ رہے پھر کافی دیر تک دعا و مناجات میں مشغول رہے، جس پر بہت سے اہل قرب پر جذب و گریہ کی کیفیت طاری ہوگئی۔ اس کے بعد تمام خلفاء کرام کی موجودگی میں ۳ محرم الحرام سنہ ۱۳۱۱ھ کو پیران کبار کے طریقۂ عالیہ کے مطابق خلافت نامہ تحریر کیا گیا۔ کارکنان قضا و قدر نے جس کو روز ازل سے اس اعزاز کا مستحق قرار دیا تھا اسی کو نصیب ہوگیا۔

    اس وقت آپ کی عمر مبارک صرف چودہ برس تھی۔ بروز پیر مؤرخہ ۷ ربیع الاول سنہ ۱۳۱۴ھ کو والد گرامی و مرشد مربی نے علالت کے باعث آپ کو خلفاء کرام اور متعلقین کی موجودگی میں حلقۂ ذکر و مراقبہ کا امر فرمایا۔ پہلے ہی حلقۂ ذکر و مراقبہ میں برکات و فیوضات کی وہ بارش برسی کہ ہر صاحب دل کے قلب پر انوار کی بارانی تھی۔ جذب و مستی، گریہ زاری، محویت و بیخودی کی کیفیت ہر سالک پر طاری تھی۔

    چونکہ حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی شہباز لامکانی رحمۃ اللہ علیہ عوارضات کے باعث فقراء و سالکین کو زیادہ وقت نہ دے پاتے تھے اس لیے حضرت صاحبزادہ صاحب ہی حلقۂ ذکر و مراقبہ کراتے رہے تاوقتیکہ حضرت والد گرامی محمد عثمان دامانی رحمۃ اللہ علیہ واصل بحق ہوئے۔ والد و مرشد گرامی کی وفات حسرت آیات کے بعد جملہ خلفاء و مریدین نے آپ کے دست حق پرست پر تجدید بیعت فرمائی۔ اس طرح پوری جماعت میں ایک فرد بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوا اور آپ کے دم سے مسند رشد و ہدایت میں از سر نو بہار آئی۔

    مسند خلافت یا سلسلہ عالیہ کی باقاعدہ اشاعت پر جب آپ مامور ہوئے تو اس وقت آپ کی عمر مبارک صرف سترہ برس تھی۔ اس مختصر سی عمر میں تمام علوم نقلیہ و عقلیہ کا حصول اور مقامات سیر و سلوک طے کرنے اور پھر مسند رشد و ہدایت پر متمکن ہونا یہ صرف عطیۂ خداوندی پیران کبار اور حضرت حاجی محمد عثمان دامانی رحمۃ اللہ علیہ کی قوی توجہ کا کمال ہے۔ گو کہ تاریخ عالم میں ایسے کم ہی نظر آتے ہیں جو ظاہری علوم و فنون سے آراستہ تھے، مگر باطنی کمال میں شاذ شاذ نظر آتے ہیں۔ آپ نے تصوف اور سلسلہ عالیہ کی وہ خدمت و اشاعت فرمائی کہ آفتاب نقشبنداں کے مبارک لقب سے موسوم ہوئے۔ مسند رشد و ہدایت پر جلوہ افروز ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کا شہرہ چہار دانگ عالم میں کردیا تھا کہ مخلوق خدا کا جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضر ہونا اس کا بین ثبوت تھا۔ جود و سخا کا یہ عالم تھا کہ آپ کی خانقاہ پر حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کا گماں ہوتا تھا۔ بڑے بڑے علماء کرام و فضلاء عظام آپ سے اکتساب فیض کرنا سعادت دارین سمجھتے تھے۔ آپ کے خوشہ چینوں میں مولانا محمود شیرازی صاحب، مولانا حسین علی صاحب بھچراں والے اور مولانا محمد امیر صاحب جھنڈیروی تھے جن سے آپ نے علوم نقلیہ و عقلیہ پڑھے تھے۔ یہ سب نہ صرف آپ سے مستفیض ہوئے بلکہ خلافت سے بھی مشرف ہوئے۔ جب آپ ڈیپ شریف وادئ سون کی خانقاہ میں موسم گرما گذارتے تو یہ علماء کرام و مشائخ عظام خانقاہ کی حدود میں کبھی جوتیاں پہن کر نہ چلتے اور جب واپسی ہوتی تو کئی میل لمبا راستہ اختیار کرتے، مبادہ کہ پیر خانہ کی طرف پیٹھ نہ ہوجائے۔ اسی طرح خانقاہ شریف پر جس سمت پیر خانہ ہوتا سوتے ہوئے ادھر پاؤں نہ کرتے۔ یہ سب آداب شیخ میں شامل ہے۔ ممکن ہے کہ بعض افراد اسے شخصیت پرستی قرار دیں، لیکن حقیقت میں یہ شخصیت پرستی نہیں ہے بلکہ ہمارے اسلاف اور بزرگوں کا طریقہ رہا ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اس طرف پاؤں نہ پھیلاتے جس طرف ان کے استاد حماد کا گھر تھا۔ اسی طرح حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سوتے وقت دہلی کی طرف اپنے پاؤں نہ پھیلاتے، کیونکہ اس طرف ان کا پیر خانہ تھا۔ اسی طرح ہمارے کئی مشائخ عظام کا یہ معمول تاحیات رہا۔ بقول شخصے

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

    ایک بار مجلس ذکر لگی ہوئی تھی، محبت الٰہیہ کے پروانے تشنگانِ معرفت چاروں طرف موجود تھے کہ ایک فقیر نے عرض کیا کہ حضور ہر شیخ کا یہ دستور رہا ہے کہ ایک خاص وقت گوشہ نشینی کے لئے مقرر کرتے ہیں، جبکہ آپ کا یہ معمول نہیں۔ آپ نے یہ سن کر جوش میں فرمایا کہ تم لوگ معرفت اور عرفان کو خلوت اور گوشہ نشینی پر منحصر سمجھتے ہو، مگر یہ بات عنایت خداوندی سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر آپ نے ایک شعر پڑھا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ محبوب خود بخود آکر اپنا دیدار کراتا ہے اور محبوب کی جلوہ گری نہ کسی کے زور سے میسر آتی ہے اور نہ زاری و زر سے۔

    ایک بار آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو صاحب درد نہیں وہ حیوان سے بھی بدتر ہے۔ یہ سن کر ایک خلیفہ حضرت مولانا عبدالاحد نے عرض کیا کہ حضور یہ تو کوئی بات نہیں ہے۔ آپ نے جوش میں ارشاد فرمایا کہ مولانا جیسے حصول دنیا کے لئے وسائل تلاش کرتے ہو اسی طرح حصول درد کے لئے بھی وسائل اور ذرائع تلاش کرو۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی خلوص نیت سے مثنوی مولانا رومی اور دیوان حافظ کا مطالعہ کرے اور شیخ کامل کے ساتھ رابطہ بھی رکھے تو انشاء اللہ فیوض و برکات سے ہرگز محروم نہیں رہے گا۔ ایک مرتبہ جب آپ ایبٹ آباد میں رونق افروز تھے تو آپ کے عقیدت مند مولوی محمد جی کے ہمراہ ایک غیر مقلد شخص بھی آپ کی محفل میں حاضر ہوا۔ مولانا محمد جی نے موقعہ پاکر عرض کیا یہ میرا ساتھی غیر مقلد ہے، حضور براہ کرم ایسی توجہ فرمائیں کہ یہ مسلک اہل سنت و جماعت حنفی اختیار کرلے۔ آپ نے فقیر کی گذارش پر اس کے ساتھی کو اپنے سامنے بٹھایا اور توجہ دیتے ہوئے حقّ حقّ حقّ کے ورد کا امر فرمایا۔ دوسرے روز جب فقیر محمد جی نے رخصت لیکر واپسی کا قصد فرمایا تو دوران سفر محمد جی کے ساتھی نے انہیں بتایا کہ مولوی صاحب حضرت شیخ کی قوی توجہ سے میرے لطائف گرمی کی شدت سے پارہ پارہ ہورہے ہیں، بیشک یہ بزرگ ولی کامل ہیں اور میں آئندہ سے غیر مقلدی سے تائب ہوتا ہوں، خداوند کریم مجھے پکا سنی اور حنفی بنائے۔

    ایک مرتبہ ضلع ژوب کے رہنے والے ایک فقیر مولوی صالح محمد مندوخیل آپ کی خدمت میں موسیٰ زئی شریف حاضر ہوئے۔ کئی دن رہنے کے بعد رخصت کی اجازت لی، ساتھ ہی ڈرتے ڈرتے ادب سے عرض کیا کہ حضور عاجز کے پاس نہ زاد سفر ہے اور نہ گھوڑے کی خوراک جبکہ منزل بہت دور ہے، میں گھر کیسے پہنچوں گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا مولوی صاحب تم کل اپنے گھر پہنچو گے۔ آپ کا یہ فرمان سنکر میں بہت حیران ہوا کہ میرا گھر تو موسیٰ زئی شریف سے تین دن کی مسافت پر ہے، میں یہ راستہ کل تک کیسے طے کروں گا۔ اسی تردد میں اپنی کمزور گھوڑی پر منزلیں طے کرنے لگا اور قدرت خدا کی کہ مجھے فاصلے کا احساس ہی نہ ہوا اور میں دوسرے روز اپنے گھر پہنچ گیا۔ یہ اللہ والوں کا کمال تصرف ہے۔ ایک طالب علم جو کہ فقراء کے خاندان سے تھا، ہندوستان گیا تو وہاں پنجاب میں اس نے قادیانی مذہب اختیار کرلیا۔ اس کے عزیزوں، رشتہ داروں نے اسے بہت سمجھایا حتیٰ کہ علماء کے ساتھ بحث و مباحثہ بھی ہوا مگر وہ واپس نہ پلٹا۔ آخر فقیروں نے آپ سے عرض کیا کہ حضور ہمارا لڑکا قادیانی ہوگیا ہے، بہت سمجھایا مگر کسی کی بات نہیں مانتا، اب حضور کی قوی توجہ کی بدولت ہی واپس اسلام میں پلٹ سکتا ہے۔ چنانچہ فقراء کی استدعا پر آپ نے اس طالب علم کے لئے دعا فرمائی۔ چند روز گذرے کہ حضور کی دعا کی برکت سے وہ طالب علم گھر آیا اور اپنے تمام رشتہ داروں کو جمع کرکے ان کے سامنے مذہب قادیانیت سے توبہ تائب ہوکر اسلام میں داخل ہوگیا۔

    مولانا عبدالحکیم فرماتے ہیں کہ ایک روز بندہ حضرت قبلہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ مولوی صاحب کوئی حالت بھی اس حالت کی برابری نہیں کرسکتی جس میں بندہ خدا تعالیٰ کا ہوکر رہے، خواہ ایک لمحے کے لئے ہی۔

    مجلس ذکر قائم ہے اور علم معرفت کے پیاسے سیراب ہورہے ہیں کہ دوران مجلس آپ نے ارشاد فرمایا کہ پیر کے حقوق سب حقداروں سے زیادہ ہیں چاہے والدین ہوں یا استاد ظاہری، اپنے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، پیر کے حقوق کو سب پر فوقیت حاصل ہے۔ ولادت ظاہری اگرچہ والدین کی طرف منسوب ہے مگر ولادت حقیقی روحانی پیر ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ پیر ہی تو ہے کہ جس کی توجہات سے مرید کی پوشیدہ نجاستیں دور ہوجاتی ہیں اور ماسوی اللہ کی آلائشوں سے پاک ہوکر خدائے عزوجل تک رسائی حاصل کرتا ہے۔

    ایک فقیر آپ کی قدم بوسی و صحبت کے لئے گھر سے روانہ ہوا۔ راستے میں مایوسی و اضطراب کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ خیال ہوا کہ جب بندہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوگا تو عرض کرے گا کہ حضور بندہ مدت دراز سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہتا ہے، محبت و سلوک نقشبندیہ فقیر کو حاصل نہیں ہوا، شاید حضور کی شفقت بندے پر نہیں ہے۔ انہیں خیالوں میں گم وہ موسیٰ زئی شریف پہنچا اور آپ کی دست بوسی کی۔ چار پانچ روز کے بعد واپسی کی اجازت لینے کے لئے آپ سے عرض کیا تو آپ نے شفقت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مولوی صاحب نجات کے لئے صرف اولیاء اللہ کی محبت رکھنی بھی کافی ہے، سلوک اور سلوک کی کاروائی ترقی درجات کا موجب بنتی ہے اور یہ حدیث شریف پڑھی کہ ”و ھم قوم لا یشقیٰ جلیسھم“ یعنی اولیاء اللہ کا ہم نشین بدبخت نہیں ہوسکتا۔ اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ خبردار اولیاء کرام کے محبین ناامید نہیں ہوا کرتے۔ آپ کا یہ فرمانا تھا کہ میرے دل سے تمام خطرات رخصت ہوئے اور میرا دل مسرت و شادمانی سے بھر گیا۔ ایک فقیر نے ایک واقعہ میں دیکھا کہ بندہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کو گیا اور وہاں مراقب ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت خواجہ محمد سعید رحمۃ اللہ علیہ بندے کو ایک کاغذ عطا فرماتے ہیں جس میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ محمد سراج الدین اس زمانے کے قیوم ہیں۔

    ۱۳۲۴ھ کو آپ قافلے کی شکل میں حج بیت اللہ کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ کے ہمراہ ۳۶ افراد تھے۔ اس سفر مبارک میں آپ پر بے انتہا فیوض و برکات کا نزول ہوا اور مقربین آپ کے مقام و مرتبے سے آگاہ ہوئے۔ مدینہ منورہ میں آپ کی سخا کا عجب عالم تھا۔ مدینہ کے فقراء و مساکین آپ کو دعائیں دے رہے تھے۔ حج سے واپسی کا سفر بھی عجیب تھا کیونکہ جس بحری جہاز سے آپ واپس آئے اس میں مساکین اور غرباء کی تعداد زیادہ تھی جو جہاز کی خوراک حاصل کرنے کے متحمل نہ تھے۔ کپتان نے آپ سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ جہاز کے سرکاری گودام سے ہمیں سرکاری قیمت پر غذا دی جائے۔ اس کے بعد آپ نے جہاز ہی میں لنگر عام کا اعلان فرمایا  اور دو وقت کی غذا ہر فرد کو لنگر سے حاصل ہوتی رہی اور یہ سلسلہ بمبئی تک جاری رہا۔ آپ کے فیوض و برکات سے ایک عالم فیضیاب ہوا۔ ہندوستان، کشمیر، بخارا و سمرقند، عرب و خراسان وغیرہ ممالک میں آپ کے فیض کے ڈنکے بجے۔ آپ نے تقریبًا ۳۴ افراد کو خلافت عطا فرمائی جن سے اس سلسلے کی مزید اشاعت ہوئی، مگر خلفاء کرام میں جو شہرت دام حضرت شیخ العرب و العجم پیر فضل علی قریشی رحمۃ اللہ علیہ کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آئی۔

    ابھی آپ کو مسند رشد و ہدایت پر متمکن ہوئے تقریبًا ۱۷ برس ہی ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ ۱۷ برس کی عمر مبارک میں آپ نے سلسلہ عالیہ کی اشاعت کا فریضہ انجام دینا شروع کردیا تھا۔ ابھی آپ کی عمر مبارک ۳۵ برس ہی تھی کہ مسلسل مجاہدات اور انتھک محنت پے درپے تبلیغی اسفار جسمانی قوت مدافعت پر اثر انداز ہوئے اور آنتوں کی سوزش آپ کو لاحق ہوئی۔ کافی علاج معالجہ کرایا۔ حکیم اجمل خان نے بھی اپنی حکمت کے جوہر دکھائے۔ وقتی افاقہ ہوا، مگر شاید قدرت خداوندی کچھ اور ہی فیصلہ کرچکی تھی اور عشق و محبت کے متوالے اب بغیر حجاب شربت پینے کے لیے بے قرار تھے۔ اس لیے ایک روز آپ نے اپنے بڑے صاحبزادے مولانا حافظ محمد ابراہیم کو فرمایا کہ کافی دوست و احباب، فقراء و مساکین خانقاہ پر موجود ہیں۔ جو رخصت ہونا چاہیں ہماری دستار پہن کر انہیں رخصت کردو۔ جمعہ کی رات کو آپ پر بخار اور ذات الریہ کا شدید حملہ ہوا جس سے آپ جانبر نہ ہوسکے اور بروز جمعہ بوقت اشراق ۲۵ ربیع الاول سنہ ۱۳۳۳ھ ۳۶ برس کی عمر مبارک کو آپ واصل بحق ہوئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

    آپ کے وصال پرملال کی خبر اہل محبت کے دلوں پر بجلی بن کر گری۔ جس تک خبر پہنچی وہ فورًا خانقاہ موسیٰ زئی شریف پہنچا۔ یوں خلفاء کرام، علماء عظام اور عقیدت مندوں کا ایک جم غفیر جمع ہوگیا۔ ہر آنکھ تر اور ہر دل ملول۔ ان تمام اہل محبت و اہل درد حضرات کے جلو میں آپ کا جنازہ تیار ہوا اور خانقاہ موسیٰ زئی شریف ہی آپ کی آخری آرامگاہ قرار پائی۔ آج بھی اہل عقیدت آپ کے مزار پرانوار سے فیوض و برکات حاصل کرتے رہتے ہیں۔

    و تحمل الکل وتکسب المعدوم و تقرئ الضیف و تعین علیٰ نوائب الحق۔

    ”خدا کی قسم! خدا تعالیٰ آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔ آپ (صلّی اللہ علیہ وسلم) رشتیداروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، بے روزگاروں کو کمانے کے قابل کرتے ہیں، مہمانوں کی خاطر کرتے ہیں اور لوگوں کی جائز مصیبتوں میں ان کی مدد کرتے ہیں۔“